میاں بیوی کے تعلقات کیسے سنبھالیں؟ انا، غلطیاں اور بچوں پر اثرات
تمہید (Introduction)
شادی ایک ایسا رشتہ ہے جس کی بنیاد اعتماد، احترام اور باہمی تعاون پر ہوتی ہے۔ مگر زندگی کے نشیب و فراز میں کبھی ایسا وقت بھی آ جاتا ہے جب دونوں ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ بات چھوٹی سی الجھن سے شروع ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ غلط فہمی، ضد اور خاموشی اسے پہاڑ بنا دیتی ہے۔ اکثر جوڑوں کو اس موڑ پر لگتا ہے کہ اب راستہ بند ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسی مقام پر ایک چھوٹا سا ٹھہراؤ سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے رک کر سانس لینا، جذبات کی شدت کم کرنا اور صورت حال کو نئے زاویے سے دیکھنا ہی اس تمہید کا پیغام ہے۔
رشتے ٹوٹنے کے قریب ہوں تو سب سے پہلے انا سامنے آتی ہے۔ ہم خود کو سو فیصد درست سمجھتے ہیں اور دوسرا فریق ہمیں مکمل غلط دکھائی دیتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ کی گئی ہر گفتگو مزید کڑواہٹ لاتی ہے۔ تمہید یہی سکھاتی ہے کہ چند لمحوں کے لیے اپنی برتری کے احساس کو ایک طرف رکھ دیں۔ شکایتوں کی فہرست لپیٹ دیں۔ پھر خود کو ساتھی کی جگہ رکھ کر سوچیں کہ اگر یہی حالات مجھ پر آتے تو میرا ردعمل کیا ہوتا۔ یہ مشق بظاہر سادہ ہے مگر رشتہ نبھانے کے لیے بنیادی قدم ہے۔
ایک اور بڑی لغزش یہ ہوتی ہے کہ ہم گھریلو مسائل کو خاندان یا دوستوں میں موضوعِ بحث بنا دیتے ہیں۔ اللہ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس بنایا ہے۔ لباس پردہ بھی دیتا ہے اور سکون بھی۔ جب ہم ایک دوسرے کے عیبوں کو غیر ضروری طور پر ظاہر کرتے ہیں تو پردہ اٹھ جاتا ہے اور دلوں میں زخم گہرے ہو جاتے ہیں۔ اکثر تیسرے لوگ نادانستہ طور پر آگ میں ہوا دے دیتے ہیں۔ اس لیے اصل دانش مندی یہ ہے کہ مسائل کو گھر کی حد میں محبت اور سنجیدگی سے سلجھایا جائے۔
رشتے کی کشمکش کا سب سے بڑا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ وہ والدین کے چہروں سے زندگی پڑھتے ہیں۔ گھر میں تلخی ہو تو ان کا اعتماد مجروح ہوتا ہے، شخصيت میں بے یقینی آتی ہے اور وہ خود کو ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر والدین الگ ہو جائیں تو محرومی کا دائرہ پھیل جاتا ہے۔ اس لیے فیصلہ کرتے وقت صرف آج نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی ذہنی اور جذباتی صحت بھی سامنے رکھنی چاہیے۔
یہ تحریر الزام تراشی کے لیے نہیں بلکہ آئینہ دکھانے کے لیے ہے۔ اس میں شوہر اور بیوی دونوں کی ذمہ داریوں کو یاد دلایا گیا ہے۔ شوہر اپنی قوامیت کو شفقت، وسعتِ ظرف اور حوصلہ میں ظاہر کرے۔ بیوی گھر کو سکون اور احترام کی فضا دے، بچوں کے سامنے باپ کی عزت قائم رکھے۔ دونوں یہ سمجھیں کہ مکمل طور پر درست کوئی نہیں ہوتا۔ بہتر بننے کی نیت ہی اصلاح کی پہلی سیڑھی ہے۔
اگر باوجود کوشش کے تعلق بچ نہیں پاتا تو بھی راستہ ختم نہیں ہوتا۔ تہذیب کے ساتھ الگ ہونے میں بھی خیر ہے، بشرطیکہ ایک دوسرے کی برائی نہ کی جائے اور بچوں کے دلوں میں نفرت نہ بوئی جائے۔ رشتے کبھی کبھی مکینوں کی بھلائی کے لیے نئے بندوبست مانگتے ہیں، مگر یہ تبدیلی عزت اور شرافت کے ساتھ ہو تو زخم کم گہرے رہتے ہیں۔
اس آرٹیکل کا مقصد آپ کو رک کر دیکھنے، خود احتسابی کرنے اور بہتر فیصلے تک پہنچنے میں مدد دینا ہے۔ اگلے حصوں میں ہم انا کی پہچان، غلطیوں کا اعتراف، پرائیویسی کی اہمیت، بچوں پر اثرات، شوہر اور بیوی کی ذمہ داریاں اور آخر میں مصالحت یا علیحدگی کے باوقار طریقے کو مرحلہ وار بیان کریں گے۔ تیار ہیں کہ اگلا حصہ شروع کریں؟
انا اور غلطیوں کا اعتراف (Ego and confession of mistakes)
ازدواجی رشتے میں سب سے بڑی رکاوٹ "انا" ہے۔ جب میاں بیوی کسی اختلاف کا شکار ہوتے ہیں تو سب سے پہلے یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ میں صحیح ہوں اور میرا ساتھی غلط ہے۔ یہی سوچ تعلق کو بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے۔
رشتے میں اصل کامیابی تب آتی ہے جب انسان اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر معاملے کو دیکھنے کی کوشش کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اگر تعلق ٹوٹنے کے قریب پہنچ گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دونوں فریق کی کچھ نہ کچھ کوتاہیاں ضرور ہیں۔ ممکن ہے ایک کی غلطیاں زیادہ ہوں اور دوسرے کی کم، مگر صفر فیصد اور سو فیصد کا تصور غیر حقیقی ہے۔
خود احتسابی کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنے رویے کا جائزہ لیں۔ کیا ہم نے کبھی سخت الفاظ استعمال کیے؟ کیا ہم نے کبھی ساتھی کے جذبات کو نظر انداز کیا؟ کیا ہم نے اپنی ضد کو اتنا بڑھا دیا کہ دوسرے کی بات سننا ہی چھوڑ دیا؟ اگر ان سوالات کے جواب ہاں میں ہیں تو تسلیم کر لینا چاہیے کہ غلطی صرف سامنے والے کی نہیں، کچھ حصہ ہمارا بھی ہے۔
جب انسان اپنی غلطیوں کو مان لیتا ہے تو دل نرم ہو جاتا ہے۔ پھر دوسروں کی خطائیں بھی بڑی نہیں لگتیں بلکہ فطری محسوس ہونے لگتی ہیں۔ غصہ، ہمدردی میں بدل جاتا ہے اور شکایتوں کی فہرست چھوٹی ہونے لگتی ہے۔
انا کو پسِ پشت ڈال کر تعلق کو بچانے کی کوشش کرنا کمزوری نہیں بلکہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ جو اپنی ضد توڑ لیتا ہے وہی رشتہ جوڑنے والا بن جاتا ہے۔
ذاتی مسائل کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے کا نقصان (The harm of discussing personal problems in front of others)
ازدواجی زندگی ایک ایسا تعلق ہے جس کی بنیاد راز داری اور اعتماد پر قائم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا "لباس" قرار دیا ہے۔ لباس نہ صرف پردہ ڈالتا ہے بلکہ تحفظ اور سکون بھی دیتا ہے۔ جب یہ تعلق دوسروں کے سامنے عیبوں کے انکشاف سے کمزور ہوتا ہے تو دراصل ہم اس لباس کو خود ہی چاک کر دیتے ہیں۔
اکثر لوگ غصے یا جذبات میں اپنے شریکِ حیات کی کمزوریوں کو خاندان، دوستوں یا رشتہ داروں میں بیان کر دیتے ہیں۔ بظاہر یہ معمولی بات لگتی ہے مگر اس کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ تیسرے لوگ اکثر صورتِ حال کو سمجھنے کے بجائے اپنی رائے شامل کر دیتے ہیں اور معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیتے ہیں۔ یوں چھوٹے اختلافات بڑے جھگڑوں میں بدل جاتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی کمزوریوں کو برداشت کر کے ہی ایک مضبوط رشتہ قائم رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ کمزوریاں دوسروں کے سامنے ظاہر کی جائیں تو نہ صرف شریکِ حیات کی عزت مجروح ہوتی ہے بلکہ دلوں میں یہ احساس بیٹھ جاتا ہے کہ "یہ میرا ساتھی میرا رازدار نہیں بلکہ میرا راز فاش کرنے والا ہے"۔ اس کے بعد دوبارہ اعتماد قائم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اس لیے دانشمندی اسی میں ہے کہ مسائل کو گھر کی چار دیواری کے اندر ہی حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ محبت اور سکون کی زبان استعمال کی جائے۔ اگر ضرورت ہو تو کسی نیک نیت اور معتبر شخص سے رہنمائی لی جا سکتی ہے، مگر مقصد صرف صلح ہو، نہ کہ ایک دوسرے کو رسوا کرنا۔
یاد رکھیں! تعلق کی حفاظت عزت کے تحفظ سے جڑی ہوئی ہے۔ جو اپنے شریکِ حیات کی عزت کو دوسروں کے سامنے بچاتا ہے، وہ دراصل اپنے رشتے کو مضبوطی بخشتا ہے۔
اولاد پر منفی اثرات (Adverse effects on offspring)
میاں بیوی کے جھگڑے اور کشیدہ تعلقات کا سب سے زیادہ نقصان معصوم بچوں کو پہنچتا ہے۔ وہ والدین کے رویوں سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں کیونکہ بچے الفاظ سے زیادہ ماحول اور لہجے کو سمجھتے ہیں۔ جب گھر میں چیخ و پکار، ناراضگی اور سرد مہری کا ماحول ہوتا ہے تو یہ ان کے ذہن اور دل دونوں پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔
ایسے بچے اکثر خاموش، ڈرے ہوئے یا ضدی ہو جاتے ہیں۔ ان کا اعتماد ٹوٹنے لگتا ہے، پڑھائی پر توجہ کم ہو جاتی ہے اور ان کی شخصیت میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ شاید ماں باپ کی لڑائی کی وجہ وہ خود ہیں۔ یہ احساس ان کے اندر احساسِ کمتری اور جرم کو جنم دیتا ہے جو آگے جا کر ان کی جوانی کی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔
اگر والدین علیحدگی اختیار کر لیں تو بچوں پر ایک اور بڑا صدمہ آتا ہے۔ ایک ماں کی ممتا یا باپ کی شفقت سے محرومی ان کے دلوں میں خلا چھوڑ دیتی ہے۔ چاہے ماں باپ دونوں اپنی پوری کوشش بھی کریں، مگر یہ حقیقت ہے کہ ٹوٹے ہوئے گھر کے اثرات بچوں کے ذہن میں ہمیشہ رہ جاتے ہیں۔ بعد میں یہ بچے رشتوں پر اعتماد کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی شادی شدہ زندگی میں بھی انہی مسائل کو دہرا دیتے ہیں۔
اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ کسی بھی فیصلہ کن قدم سے پہلے یہ سوچیں کہ ان کے اختلافات کا اثر صرف ان پر نہیں بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی پڑے گا۔ بچوں کے لیے سب سے بڑی نعمت والدین کا پرامن اور محبت بھرا تعلق ہے۔ اگر یہ ماحول نہ ملے تو دنیا کی کوئی دولت بھی اس خلا کو پُر نہیں کر سکتی۔
شوہر کی ذمہ داریاں (Husband's responsibilities)
اسلام نے شوہر کو "قَوّام" کا درجہ دیا ہے، یعنی وہ گھر کا سنبھالنے والا، سہارا دینے والا اور قیادت کرنے والا ہے۔ اس منصب کے ساتھ ذمہ داریاں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے آج کے دور میں کئی شوہر اپنی ذمہ داری کو بوجھ کے بجائے طاقت سمجھتے ہیں اور اس طاقت کا استعمال مقابلے اور غصے میں کرتے ہیں، جبکہ حقیقت میں شوہر کو وہ سہارا بننا چاہیے جس پر بیوی اعتماد کر سکے۔
شوہر کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ عورت ایک حساس مخلوق ہے، اسے سخت الفاظ سے زیادہ دل شکنی ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہے۔ اس لیے شوہر کے نرم رویے سے گھر کا ماحول جنت جیسا بن سکتا ہے۔
دوسری بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی اور بچوں کی کفالت دل کھول کر کرے اور کبھی احسان نہ جتائے۔ بیوی کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ وہ اس گھر کی رانی ہے، اس کے خواب اور خواہشات کی قدر کی جاتی ہے۔ اگر شوہر بیوی کے اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی کرے، اس کے فیصلوں میں ساتھ دے اور مشکل وقت میں ڈھال بنے تو بیوی کا اعتماد کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
شوہر کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی کی غلطیوں پر درگزر کرنا ہی اصل طاقت ہے۔ ہر رشتہ اونچ نیچ سے گزرتا ہے، لیکن بڑے پن کا ثبوت یہی ہے کہ کمزوریوں کو نظر انداز کر کے اچھائیوں کو بڑھایا جائے۔ بیوی کو یہ خوف دینا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا یا ہر وقت اس کے مشاغل کو دبانا تعلق کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کرتا ہے۔
ایک اچھا شوہر وہ ہے جو اپنی بیوی کو یہ یقین دلائے کہ "میں تمہارے ساتھ ہوں، تمہاری قدر کرتا ہوں اور تمہاری عزت میری عزت ہے۔" یہی رویہ دراصل قوامیت کا اصل مطلب ہے۔
بیوی کی ذمہ داریاں (Responsibilities of a wife)
جیسے شوہر پر گھر کی سربراہی اور کفالت کی ذمہ داری ہے، ویسے ہی بیوی پر بھی ایک گھر کو سکون اور محبت کی جنت بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عورت کو فطری طور پر نرمی، قربانی اور جذبۂ ایثار عطا کیا گیا ہے، اور یہی خصوصیات ایک گھر کو جنت یا جہنم بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔
بیوی کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شوہر کو وہ مقام دے جس کا وہ حقدار ہے۔ شوہر کی عزت کرنا اور بچوں کے سامنے اس کی وقعت کو قائم رکھنا نہ صرف رشتے کو مضبوط کرتا ہے بلکہ بچوں کے دل میں باپ کے لیے احترام پیدا کرتا ہے۔ اگر عورت اپنے میکے یا دوسروں کے سامنے شوہر کی خامیاں گنوانے لگے تو اس سے شوہر کی عزت مجروح ہوتی ہے اور تعلق میں تلخی بڑھتی ہے۔
گھر کے اندر سکون پیدا کرنا بیوی کی فطری صلاحیت ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ دنیا کی سب سے قیمتی دولت نیک بیوی ہے، جو شوہر کو دیکھ کر خوش کرے اور غیر موجودگی میں اس کی عزت اور مال کی حفاظت کرے۔ اس لیے بیوی کا نرم لہجہ، خندہ پیشانی اور صبر ہی گھر میں جنت جیسا ماحول بنا سکتا ہے۔
بیوی کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ شوہر کو صرف کمائی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ شوہر کو یہ احساس ملنا چاہیے کہ اس کی محنت کی قدر کی جاتی ہے، اس کی رائے کی اہمیت ہے اور اس کی خواہشات کو بھی سنا جاتا ہے۔ اگر شوہر کی کوئی عادت پسند نہ ہو تو اس پر الزام تراشی یا جھگڑے کے بجائے محبت اور حکمت کے ساتھ اسے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایک مثالی بیوی وہ ہے جو اپنے شوہر کو یہ یقین دلائے کہ میں تمہاری قدردان، رازدار اور زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ دینے والی ہوں۔ جب شوہر یہ اعتماد محسوس کرتا ہے تو وہ اپنی بیوی کو دل سے رانی کا مقام دیتا ہے، اور یہی اصل کامیابی ہے۔
اگر تعلق بچانا ممکن نہ ہو (If the relationship cannot be saved)
کبھی کبھی انسان بھرپور کوششوں کے باوجود رشتے کو بچا نہیں پاتا۔ شکایتیں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ صلح کے دروازے بند ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں اسلام نے علیحدگی (طلاق) کا راستہ رکھا ہے، لیکن یہ آخری اور انتہائی قدم ہے۔ اصل مقصد نفرت پھیلانا نہیں بلکہ مزید نقصان سے بچنا ہے۔
اگر علیحدگی ناگزیر ہو تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسے ایک دوسرے پر احسان سمجھ کر اپنایا جائے۔ یعنی ماضی کی تلخیوں کو کریدنے کے بجائے یہ کہا جائے کہ نبھا نہ ہو سکا اور علیحدگی ہی بہتر تھی۔ یہ جملہ دلوں میں نفرت کے بیج بونے سے بہتر ہے۔
شوہر اور بیوی کو چاہیے کہ علیحدگی کے بعد ایک دوسرے کی برائیاں دوسروں میں نہ بیان کریں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف ان کی اپنی شخصیت کو چھوٹا کرتا ہے بلکہ بچوں کے دلوں میں بھی کڑواہٹ پیدا کرتا ہے۔ اگر بچے یہ دیکھیں کہ والدین ایک دوسرے کے خلاف زہر نہیں اگل رہے بلکہ وقار کے ساتھ الگ ہوئے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ تاثر قائم رہے گا کہ رشتے میں ناکامی کے باوجود عزت برقرار رکھی جا سکتی ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علیحدگی کے بعد بچوں کی تربیت اور محبت دونوں والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر والدین اپنی انا کی جنگ میں بچوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے لگیں تو سب سے زیادہ نقصان انہی معصوم دلوں کو ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے کی عزت قائم رکھیں تاکہ بچے اعتماد کے ساتھ پروان چڑھ سکیں۔
یوں علیحدگی اگرچہ ایک مشکل فیصلہ ہے، لیکن اگر اسے وقار، صبر اور احسان کے ساتھ اختیار کیا جائے تو یہ کڑوا گھونٹ بھی نئی زندگی کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
نتیجہ (Conclusion)
ازدواجی رشتہ محض دو افراد کا نہیں بلکہ دو خاندانوں اور آنے والی نسلوں کا بھی تعلق ہوتا ہے۔ اسے مضبوط رکھنے کے لیے سب سے زیادہ ضرورت صبر، درگزر اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی ہے۔ اکثر اوقات انا اور ضد انسان کی نظر کو دھندلا دیتی ہے اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل مقصد جیتنا نہیں بلکہ رشتہ بچانا ہے۔
اگر میاں بیوی اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیں، ذاتی مسائل دوسروں پر نہ اچھالیں، بچوں کی معصوم ذہنی دنیا کو سامنے رکھیں، شوہر اپنی قوامیت کو محبت اور تحفظ میں بدل دے اور بیوی اپنے گھر کو سکون اور عزت کا گہوارہ بنائے تو تعلق مضبوط ہو سکتا ہے۔ مگر اگر باوجود کوشش کے صلح نہ ہو تو پھر علیحدگی کا فیصلہ بھی وقار اور احسان کے ساتھ کیا جائے، نہ کہ ایک دوسرے کو بدنام کر کے۔
یاد رکھیں! اصل ہمت یہ نہیں کہ آپ ہر حال میں اپنی برتری منوائیں، بلکہ اصل ہمت یہ ہے کہ آپ اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر رشتے کی حفاظت کریں۔ اور اگر رشتہ بچ نہ سکے تو بچوں کے دل میں والدین کی عزت کو قائم رکھتے ہوئے نئی زندگی کا آغاز کریں۔
اللہ تعالیٰ ہر گھر کو سکون، محبت اور رحمت سے بھر دے، اور ہمیں وہ بصیرت عطا کرے کہ ہم تعلقات کو نبھانے کے راستے پر چل سکیں، نہ کہ توڑنے کے۔






