حجاب: عزت کا پرچم یا جبر؟ ایک سچے تجربے کی روشنی میں پردے کی حقیقت
تمہید:
حجاب — ایک ایسا لفظ جو آج کے معاشرے
میں بحث، الجھن اور سوالات کا مرکز بن چکا ہے۔ کچھ لوگ اسے جبر کی علامت سمجھتے
ہیں، تو کچھ اسے عورت کی شناخت اور آزادی کا علمبردار مانتے ہیں۔ لیکن بعض تجربات
ایسے ہوتے ہیں جو ہر دلیل، ہر بحث سے آگے نکل کر دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے
ایک سچ کو بیان کرتے ہیں۔
یہ مضمون ایک ایسی خاتون کی داستان پر مبنی ہے جس نے حجاب کا آغاز مذہبی عقیدت سے نہیں، بلکہ ایک جسمانی مجبوری سے کیا۔ انھیں ایک نایاب بیماری لاحق تھی، جس میں سورج کی روشنی ان کے لیے زہر بن جاتی تھی۔ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے خود کو کپڑوں میں لپیٹنے لگیں — اور یوں انجانے میں انھوں نے جو چیز اوڑھی، وہ محض کپڑا نہیں تھا، بلکہ عزت، وقار، اور اللہ کی طرف رہنمائی کا ذریعہ بن گئی۔
حجاب کا پس منظر: بیماری سے بیداری تک
ہر انسان کی زندگی میں کچھ آزمائشیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر کمزوری
لگتی ہیں، لیکن دراصل وہی کمزوریاں اسے ایک نیا راستہ دکھاتی ہیں۔ اس خاتون کی
زندگی میں بھی ایک ایسی ہی بیماری — Mast Cell Activation
Syndrome (MCAS) — نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ یہ ایک
نایاب اور تکلیف دہ بیماری ہے جس میں انسانی جسم کا مدافعتی نظام حد سے زیادہ حساس
ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ عام روشنی، کھانے، خوشبو، حتیٰ کہ جذبات بھی الرجی کا باعث
بن سکتے ہیں۔ اور سورج کی روشنی؟ وہ تو گویا ان کے لیے ایک خاموش زہر تھی۔
جہاں دوسرے لوگ سورج کی روشنی میں زندگی اور حرارت محسوس کرتے تھے،
وہیں یہ روشنی ان کے لیے سانس بند ہونے، جلد جلنے اور جان لیوا جھٹکے کا باعث بنتی
تھی۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے انھیں خود کو مکمل طور پر کپڑوں میں ڈھانپنا پڑا —
لمبے دامن، موٹے سکارف، بند آستینیں اور سر سے پاؤں تک پردہ۔
ابتداء میں یہ سب محض جسمانی تحفظ کے لیے تھا، مگر جلد ہی انھیں احساس
ہوا کہ یہ پردہ صرف سورج سے بچاؤ کا ذریعہ نہیں، بلکہ انسانوں کی بے لگام
نظریں بھی ان سے ہٹنے لگیں۔ وہ جو پہلے بازار میں خود کو ایک
"شکار" کی مانند محسوس کرتی تھیں، اب ان کے گرد رویے بدلنے لگے۔ نگاہوں
میں شرم آ گئی، زبانوں پر نرمی آ گئی۔
ایسا لگا جیسے اللہ نے ان کی بیماری کو رہنمائی کا ذریعہ بنایا ہو — ایک ایسی مجبوری، جو انھیں شعور، حیا، اور اللہ کی قربت کی طرف لے گئی۔
نگاہ کی طاقت اور عورت کی حیثیت
اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ ظلم ہاتھ اٹھانے سے شروع ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ
ہے کہ ظلم کی پہلی چنگاری نگاہ کے اندر سلگتی ہے۔ نگاہ، بظاہر
ایک خاموش حرکت ہے، مگر اس کی زبان بڑی تیز اور بے رحم ہو سکتی ہے۔ یہی نگاہ، کسی
انسان کو عزت بخشتی ہے — اور یہی نگاہ، کسی کو بے لباس کر کے رکھ دیتی ہے، چاہے وہ
سروں سے پاؤں تک ڈھکا ہوا ہو۔
مصنفہ نے جب خود کو حجاب میں ڈھانپنا شروع کیا، تو انھوں نے ایک عجیب
تبدیلی محسوس کی:
جہاں پہلے نظریں ان کے جسم کو چیرتی تھیں، اب
وہاں ہچکچاہٹ آ گئی۔
جہاں پہلے وہ بازار میں "چیز" یا
"شکار" کی مانند محسوس کرتی تھیں، اب ان کے وجود کے گرد ایک خاموش حفاظت
کی فضا بن گئی۔
یہ کوئی خیالی بات نہ تھی۔ یہ ان کی آنکھوں کا وہ تجربہ تھا، جو انھوں
نے دوسرے لوگوں کی آنکھوں میں صاف محسوس کیا۔ کیونکہ نگاہ صرف دیکھتی نہیں — یہ طاقت رکھتی ہے، اثر ڈالتی
ہے، اور دل و دماغ پر چھاپ چھوڑتی ہے۔
اسلام اسی حقیقت کو سب سے پہلے پہچانتا ہے۔ قرآن میں سب سے پہلا حکم مردوں
کو دیا گیا:
"مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے ، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے۔"
) سورۃ النور، آیت 30)
یعنی فتنہ نگاہ سے شروع ہوتا ہے، ہاتھ بعد میں اٹھتے ہیں۔
لیکن آج کا معاشرہ الٹا سبق دیتا ہے: مرد اپنی نظر روکنے
کے بجائے عورت سے کہتا ہے کہ "تم چھپ جاؤ، تم نہ نکلو" — جبکہ قرآن کہتا
ہے پہلے نگاہ جھکاؤ، پھر عورت سے پردے کی بات کرو۔
مصنفہ کی کہانی یہی بتاتی ہے کہ جب عورت خود کو ڈھانپتی ہے، تو وہ
صرف اپنی حفاظت نہیں کر رہی ہوتی — بلکہ وہ دنیا کو ایک پیغام دے رہی ہوتی ہے:
"میں کوئی نمائش کی چیز نہیں، میں ایک باوقار وجود ہوں، جسے سر جھکا کر دیکھا
جائے۔"
اسلام میں حجاب کا حکم اور مردوں کی ذمہ داری
اکثر حجاب کو صرف عورتوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے — گویا یہ صرف ان کی
ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو چھپائیں، پردہ کریں، نظر جھکائیں۔ لیکن قرآنِ
مجید کا پہلا مخاطب مرد ہے، نہ کہ عورت۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مومن مردوں کو حکم دیا:
"مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی
رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ تر ہے۔ بے شک اللہ
ان کے کاموں سے باخبر ہے۔"
(سورۃ النور، آیت 30)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے ، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔ ..."
(سورۃ النور، آیت 31)
یعنی پہلا قدم مردوں کے لیے ہے — کیونکہ اگر نظریں بے قابو ہوں، تو پردہ ایک طرف رہ جاتا ہے۔
اسلام نے مردوں کو محض "فطری کمزوری" کا بہانہ
دے کر معاف نہیں کیا، بلکہ انہیں نفس پر قابو، نظر کی حفاظت اور اخلاقی
پاکیزگی کا پابند بنایا۔
مصنفہ نے بالکل درست انداز میں یہ نکتہ اٹھایا کہ معاشرہ مردوں
کو "شکاری" بننے کی اجازت دیتا ہے — لیکن قرآن ان سے "محافظ" بننے کا تقاضا کرتا ہے۔
اسلام میں عورت کو ہمیشہ عزت، حیا، اور وقار کا مقام دیا
گیا ہے۔ اگر مرد عورت پر بری نظر ڈالے، تو قصوروار وہ خود ہے، عورت نہیں۔
اور جہاں تک عورت کے حجاب کی بات ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بھی
حکمت کے ساتھ یہ حکم دیا:
"اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہل ایمان
کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب ہے
تاکہ وہ پہچانی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔"
(سورۃ الاحزاب، آیت 59)
یہ حکم صرف لباس کا نہیں، بلکہ ایک سماجی تحفظ اور روحانی
وقار کا اعلان ہے۔
اللہ عورت کو ظلم سے بچانے کے لیے پردہ دیتا ہے، نہ کہ اس
پر ظلم کرنے کے لیے۔
حجاب کا سماجی اثر
جب ایک عورت حجاب اوڑھتی ہے، تو وہ صرف کپڑا نہیں اوڑھتی — وہ اپنی
شناخت، عزت، اور خودداری کا اعلان کرتی ہے۔
مصنفہ کا تجربہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حجاب نے نہ
صرف سورج کی تپش سے ان کی حفاظت کی، بلکہ انسانوں کی نظروں کی آگ سے بھی
بچایا۔
وہ کہتی ہیں کہ حجاب لینے کے بعد لوگوں کا رویہ بدل گیا۔
·
مرد جو
پہلے آنکھوں سے ناپ تولتے تھے، اب نظریں جھکا لیتے تھے۔
·
جن کی
زبانوں میں زہر تھا، اب ان کے الفاظ میں نرمی آ گئی تھی۔
·
وہ خود جو
پہلے ایک "اشتہار" یا "شکار" کی مانند محسوس کرتی تھیں، اب ایک
قابلِ احترام وجود بن چکی تھیں۔
یہ تبدیلی کوئی جادو نہیں تھی — یہ اللہ کے نظام کا اثر تھا۔
جب عورت خود کو ڈھانپتی ہے، تو معاشرہ بھی اسے اس نگاہ سے نہیں دیکھتا جس سے پہلے
دیکھتا تھا۔
یعنی حجاب صرف عورت کے جسم کو نہیں ڈھانپتا — یہ نگاہوں
کی بے راہ روی کو روکنے کا اعلان بھی ہے۔
مصنفہ نے اپنی بیماری کو اللہ کی طرف سے ایک ہدایت کے
طور پر دیکھا — ایک ایسا ذریعہ، جس نے انھیں حجاب کی برکتوں کا عملاً تجربہ کرا
دیا۔
یہ ایک خوبصورت حقیقت ہے کہ اللہ کبھی کسی آزمائش
کو بلا مقصد نہیں بھیجتا۔ بعض اوقات وہ دکھ، کمزوریاں، یا بیماریاں انسان
کو ایسے مقام پر لا کھڑا کرتی ہیں جہاں سے اسے رب کی رضا اور حکمت نظر آنے لگتی
ہے۔
ان کا کہنا بجا ہے کہ حجاب ان کے لیے صرف ایک کپڑا نہیں رہا،
بلکہ ایک ڈھال بن گیا —
·
لوگوں کی
خواہش بھری نگاہوں سے بچانے والا
·
معاشرے کے
دباؤ سے نکلنے کا ذریعہ
·
اور سب سے
بڑھ کر، اللہ کی طرف پلٹنے کا وسیلہ
قرآن کی روشنی میں آزمائش کا فلسفہ
زندگی میں آنے والی ہر آزمائش محض ایک تکلیف نہیں، بلکہ اکثر اوقات اللہ کی طرف سے ایک اشارہ، ایک درس، یا ایک راستہ ہوتا ہے۔
مصنفہ نے جب اپنی نایاب بیماری کو حجاب کا ذریعہ بنتے
دیکھا، تو انھیں قرآن کی وہ آیات دل سے چھو گئیں جو آزمائشوں کی حکمت کو بیان کرتی
ہیں۔
🌿 پہلی آیت:
"اور جو مصیبت بھی تمہیں
پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ہے، اور (اللہ) بہت سی باتوں
سے درگزر فرماتا ہے۔"
(سورۃ
الشوریٰ، آیت 30)
اس آیت سے مصنفہ کو یہ شعور ملا کہ زندگی میں جو مشکلات آئیں، وہ صرف
سزا نہیں، بلکہ ان میں رب کی رحمت اور مغفرت بھی چھپی ہے۔
انھیں یہ احساس ہوا کہ بیماری ایک موقع ہے — اپنے نفس، اپنے اعمال،
اور اپنے رب کی طرف پلٹنے کا۔
🌸 دوسری آیت:
"اور ہو سکتا ہے کہ تم
کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز
کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔"
(سورۃ
البقرہ، آیت 216)
یہ آیت ان کے دل میں ایسے جا بسی کہ جیسے اللہ نے خاص ان کے لیے ہی یہ پیغام نازل کیا ہو۔
وہ بیماری جس نے انھیں "کمزور"، "بے
بس"، یا "محتاج" بنا دیا تھا — دراصل وہی ان کے ایمان، فہم، اور
حجاب کی طرف رہنمائی کا ذریعہ بن گئی۔
💡 نتیجہ:
یہ وہ مقام تھا جہاں مصنفہ نے محسوس کیا کہ
"جو چیز مجھے سب سے زیادہ
کمزور کرتی تھی، وہی میری سب سے بڑی طاقت بن گئی۔"
آزمائشوں میں شکوہ کرنے کے بجائے، جب انسان انہیں اللہ کی حکمت کے آئینے میں
دیکھتا ہے، تو وہ دکھ ذریعہ بن جاتے ہیں سکون
کا، سچائی کا، اور قربِ الٰہی کا۔
حجاب: شرم نہیں، خودداری کی پہچان
جدید دنیا میں حجاب کو اکثر شرم،
پابندی، یا عورت کی "دبے ہوئے" تشخص
کے طور پر پیش کیا جاتا ہے — لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔
حجاب عورت کی کمزوری نہیں، اس کی خودمختاری اور خودداری کی پہچان ہے۔ یہ کہنا کہ "میں کسی کی نمائش نہیں، نہ ہی کسی کی تسکین کا
ذریعہ ہوں۔"
مصنفہ نے بڑے خوبصورت انداز میں اس احساس کو بیان کیا:
"حجاب میرا اعلان تھا —
کہ میرا جسم میرا ہے، تمہارا نہیں۔ میری قدر تمہاری نگاہوں سے نہیں، میرے رب کی
رضا سے ہے۔"
حجاب اوڑھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت کو اپنے جسم سے شرم ہے —
بلکہ یہ پیغام ہے کہ "میرا جسم ایک امانت ہے، ایک عبادت ہے، اور اس کی حفاظت میرا حق اور
فرض دونوں ہے۔"
🚫 حجاب کیا نہیں ہے:
·
یہ کمزوری
کا اعتراف نہیں
·
یہ
"خوف" کی علامت نہیں
·
یہ سماجی
جبر کا لباس نہیں
✅ حجاب کیا ہے:
·
وقار
کا پرچم
·
نظروں
کے ظلم سے تحفظ کی ڈھال
·
اپنی
قدر خود طے کرنے کی جرات
مصنفہ نے بجا طور پر کہا کہ:
"میں حجاب پہن کر غائب
نہیں ہوئی — بلکہ میں پہلی بار دیکھی گئی، بطور انسان، بطور روح، نہ کہ جسم۔"
یہی اسلام کا پیغام ہے۔ عورت کو محض جسم نہیں سمجھا گیا — بلکہ روح، عقل، کردار اور عبادت کا ایک مکمل وجود قرار دیا گیا ہے۔
حجاب عورت کو غیر مرئی نہیں بناتا، وہ اسے معاشرے کی آنکھ میں محترم بنا دیتا ہے۔
اسلامی اقدار بمقابلہ جدید کلچر
آج کا جدید کلچر عورت کو آزادی کے نام پر ظاہری حسن اور جسمانی نمائش کا
غلام بنا چکا ہے۔ اشتہارات، سوشل میڈیا، اور فیشن انڈسٹری مسلسل یہی پیغام دیتی
ہیں کہ "عورت کی قدر اس کے جسم میں ہے، اس کے لباس کی قلت میں ہے، اور وہ
جتنی زیادہ دکھائی دے، اتنی زیادہ پسند کی جائے گی۔"
یہ کلچر مرد کو "چاہنے والا" نہیں، بلکہ "حاصل کرنے والا"
بناتا ہے۔
اور عورت کو "محفوظ وجود" نہیں، بلکہ "دکھاوے کی چیز" بنا
کر پیش کرتا ہے۔
مصنفہ نے اس تضاد کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔
انہوں نے کہا:
"آج کی دنیا عورت کو
سکھاتی ہے کہ وہ اتنی ہی قیمتی ہے جتنی وہ خود کو بے پردہ کرتی ہے — اور مرد کو یہ
یقین دلاتی ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔"
اسلام اس جھوٹے نظریے کو مکمل طور پر رد کرتا ہے۔
قرآن اور سنت کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کو
·
عزت
دار مخلوق
·
نفس
پر قابو رکھنے والے انسان
·
اور اللہ کی امانت دار روحیں قرار
دیا گیا ہے۔
✨ اسلامی پیغام:
اسلام عورت کو یہ نہیں کہتا کہ وہ خود کو چھپائے کیونکہ مرد بدمعاش ہے —
بلکہ وہ مرد
کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنی نگاہ اور نیت کو
پاک رکھے، اور عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ
خود اپنے وجود کی حفاظت کرے، بازار کی زینت نہ
بنے۔
⚖️ فرق واضح ہے:
اسلامی نظریہ |
جدید کلچر |
عورت = وقار، عبادت، امانت |
عورت = جسم، خوشنمائی، شہوت |
مرد = محافظ، ذمہ دار |
مرد = بے قابو، شکاری |
نگاہ = قابو میں رکھنا |
نگاہ = آزادی، جائز تسکین |
پردہ = عزت و وقار |
پردہ = جبر یا پسماندگی |
مصنفہ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جب
ایک عورت اسلام کی روشنی میں حجاب کو اپناتی ہے، تو وہ نہ صرف خود کو بچاتی ہے
بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ "مجھے صرف اللہ کی رضا کی ضرورت ہے،
تمہاری منظوری کی نہیں۔"
نتیجہ: حجاب — ایک ڈھال، ایک پرچم، ایک اعلان
مصنفہ کی یہ داستان صرف ایک فرد کی بیماری یا لباس کی تبدیلی کی کہانی
نہیں — یہ ایک بیداری کا سفر ہے۔
یہ دکھاتی ہے کہ کیسے ایک ظاہری کمزوری — جیسے بیماری —
انسان کو اللہ کی قربت، روحانی وقار، اور معاشرتی تحفظ کی طرف لے جا سکتی ہے۔
ابتداء میں، حجاب ایک ضرورت تھا — سورج کی روشنی سے بچاؤ کی ایک حفاظتی
تہہ۔
لیکن آہستہ آہستہ وہ تہہ ایک ڈھال بن گئی — نہ صرف روشنی سے، بلکہ بدنظری، بدگمانی، اور بدنیتی سے بھی۔
✨ حجاب:
·
جسم کو
ڈھانپنے سے پہلے روح کو بلند کرتا ہے
·
زبان سے
کچھ کہے بغیر دلوں کو پیغام دیتا ہے
·
عورت کو شکار نہیں، شعور والا انسان
بناتا ہے
·
اور مرد کو
یاد دلاتا ہے کہ اسلام شکاری نہیں، محافظ
بننے کا دین ہے
مصنفہ نے درست کہا:
"میں جب حجاب پہنتی ہوں،
تو محسوس کرتی ہوں کہ میں چھپی نہیں، بلکہ اب دیکھی جا رہی ہوں — انسان کی حیثیت
سے، جسم نہیں، روح کے طور پر۔"
قرآن نے پردے کو عورت کے لیے ایک
پہچان اور تحفظ قرار دیا:
"... تاکہ
وہ پہچانی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان
ہے۔"
(سورۃ
الاحزاب، آیت 59)
یہی وہ آیت ہے جس نے مصنفہ کے دل کو چھو لیا — جیسے اللہ نے ان سے کہا
ہو:
"میں تمہیں تمہارے جسم سے شرمندہ ہونے کے
لیے نہیں کہتا — بلکہ میں تمہیں وہ ڈھال دیتا ہوں جو تمہیں اس دنیا کی نظر و زخم
سے بچا سکے۔"
📣 آخری پیغام:
حجاب شرم کا اظہار نہیں — یہ آزادی کا اعلان ہے۔
یہ بتانے کا انداز ہے کہ:
"میری عبادت میری مرضی ہے، میری قیمت اللہ
کی رضا سے طے ہوتی ہے،
اور میری شخصیت کسی کی نظر، تبصرے یا پسند سے کم یا زیادہ
نہیں ہوتی۔"
📌 FAQs (اکثر پوچھے جانے والے سوالات):
1. کیا حجاب صرف عورت کے لیے ہے؟
نہیں، اسلام میں حجاب کا پہلا حکم مردوں
کو نگاہ نیچی رکھنے کا ہے۔ قرآن مجید (سورۃ
النور: 30–31) میں واضح طور پر مرد و عورت دونوں کو شرم و حیا اور اخلاقی پاکیزگی کا حکم دیا گیا
ہے۔
2. کیا حجاب جسمانی بیماری یا مجبوری کی
بنا پر بھی اپنایا جا سکتا ہے؟
جی ہاں، کئی خواتین جیسے کہ MCAS (mast cell activation
syndrome) کی مریضات، حجاب کو طبی تحفظ کے طور پر اپناتی ہیں۔
بعد میں یہی پردہ انہیں روحانی رہنمائی کی طرف لے جاتا ہے۔
3. کیا حجاب عورت
کی آزادی چھینتا ہے؟
بالکل نہیں۔ حجاب عورت کی آزادی کا اعلان ہے، جبر نہیں۔ یہ کہتا ہے:
"میری مرضی، میرا جسم، میری عبادت — تمہاری
پسند پر نہیں۔"
4. اسلام حجاب کو
کیوں ضروری سمجھتا ہے؟
اسلام عورت کو ایک محفوظ، باعزت، اور
نمایاں مقام دینا چاہتا ہے۔ حجاب نہ صرف ظاہری
تحفظ دیتا ہے بلکہ معاشرتی عزت اور روحانی
قرب کا ذریعہ بھی ہے۔
5. کیا جدید
معاشرے میں حجاب قابلِ قبول ہے؟
اگرچہ جدید کلچر عورت کو جسمانی نمائش کی طرف مائل کرتا ہے، لیکن حجاب
اختیار کرنے والی خواتین نے ثابت کیا ہے کہ وہ ماڈرن
بھی ہو سکتی ہیں اور باوقار بھی۔