چھوٹے بچے، بڑے راز: بچوں کے رویوں کے پیچھے چھپی سائنس
.png)
زینی اس کا خیالی دوست تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ روز اس کے بارے میں بات کرتی تھی — کبھی اس کے کپڑوں کا ذکر، کبھی اس کی پسندیدہ آئس کریم۔ پہلے تو میں نے سمجھا شاید بس ایک کھیل ہے، مگر پھر مجھے یاد آیا کہ بچوں کا یہ رویہ کچھ خاص کہانی کہتا ہے۔
🌈 تخیل کی طاقت: خیالی دوست بنانا
ماہرین کہتے ہیں کہ جب بچے خیالی دوست بناتے ہیں، تو وہ دراصل
اپنی تخلیقی صلاحیت، جذباتی سمجھ اور مسئلہ حل کرنے کی مہارت
کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ عمل دماغ کے دائیں حصے (Right Hemisphere)
اور لمبک سسٹم (Limbic System)
سے جڑا ہوتا ہے — وہ حصے جو تخیل، یادداشت اور جذبات کو
کنٹرول کرتے ہیں۔
📌
سائنسی حوالہ:
Harvard University کے مطابق، تخیلاتی کھیل بچوں کے
جذباتی توازن اور سماجی تعلقات بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
(Harvard Center on the Developing Child)
(Harvard Center on the Developing Child)
"امی، یہ کیوں ہوتا ہے؟ وہ کیا کر رہا ہے؟ اگر چڑیا اڑ جائے تو
واپس کیوں نہیں آتی؟"
ماہین کے سوالات ختم ہی نہیں ہوتے۔ ایک دن میں نے مذاق
میں گننا شروع کیا — تقریباً 57 سوالات!
بار بار سوالات: دماغی کنیکشنز کی
بنیاد
بچوں کے سوالات صرف تجسس نہیں ہوتے، بلکہ یہ ان کے نیورل
راستوں (Neural
Connections) کو بنانے
کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
ان "کیوں؟ کیسے؟" جیسے سوالات سے دماغ میں
سیکھنے کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔
📌
سائنسی حوالہ:
Stanford University کے محققین کے مطابق، بچوں کے
سوالات دماغ میں نئے نیورل راستے پیدا کرتے ہیں، جو ان کی سیکھنے کی رفتار کو تیز
کرتے ہیں۔(Stanford University - Brain Development Research)
ایک دن ماہین ضد کرنے لگی:
"میں خود کپڑے پہنوں گی!"
اس نے میری مدد لینے سے انکار کر دیا، چاہے جرابیں الٹی
ہی کیوں نہ پہن لیں۔
🧠 خود سے کام کرنا: خود انحصاری کی مشق
یہ رویہ بچوں کی ایگزیکٹو فنکشنز کی نشوونما کا حصہ
ہوتا ہے — یعنی منصوبہ بندی، فیصلہ سازی، اور نظم و ضبط کی صلاحیت۔
جب بچہ خود کام کرنے پر اصرار کرتا ہے، تو وہ دراصل خود
اعتمادی اور استقلال سیکھ رہا ہوتا ہے۔
📌
سائنسی حوالہ:
University of Washington کے مطابق، خود سے چھوٹے کام
کرنے کی عادت بچوں میں خود کفالت اور مضبوط فیصلہ سازی کی بنیاد رکھتی ہے۔(UW Institute for Learning & Brain Sciences)
ایک دن ماہین مجھے دیکھ کر میرے ہی انداز میں بولنے لگی — ہاتھ
بھی اسی طرح ہلا رہی تھی جیسے میں فون پر بات کرتے وقت کرتا ہوں۔
میں پہلے حیران ہوا، پھر ہنس پڑا۔
🪞 نقل کرنا: مرر نیورونز کا کمال
بچوں کا بڑوں یا دوسرے بچوں کی نقل کرنا صرف تفریح نہیں — یہ
دماغ کے مرر نیورونز کی سرگرمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
یہ نیورونز بچوں کو سیکھنے، ہمدردی محسوس کرنے،
اور سماجی تعلقات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
📌 سائنسی حوالہ:
University of Parma، اٹلی میں مرر
نیورونز پر ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نیورونز بچوں کو زبان، عادات اور
سماجی تعلقات سیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔(University of Parma - Mirror Neuron Studies)
🎯 نتیجہ: بچے جو بتا نہیں سکتے، وہ کر
کے دکھاتے ہیں
ماہین کے چھوٹے چھوٹے رویے — اس کی زینی سے باتیں، اس کے
سوالات، ضد، اور نقل — دراصل اس کے بڑھتے ہوئے دماغ کی کہانیاں ہیں۔
ہر رویہ ایک پیغام ہے۔ اگر ہم والدین ان رویوں کو دبانے
کے بجائے سمجھنے لگیں، تو ہم نہ صرف اپنے بچوں کے قریب آ سکتے ہیں بلکہ ان کی
شخصیت کو پروان چڑھانے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
کیونکہ بچہ صرف بڑا نہیں ہو رہا — وہ ایک مکمل انسان بن رہا
ہے۔