مولانا غلام محمد وستانویؒ: ایک روشن چراغ جس نے تعلیمی اندھیروں کو اجالا بخشا
تمہید
بھارت کی سرزمین پر کئی عظیم علماء و مصلحین نے جنم لیا، لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو صرف علم نہیں بانٹتیں، بلکہ نسلوں کی قسمت بدل دیتی ہیں۔ مولانا غلام محمد وستانویؒ بھی انہی میں سے ایک تھے۔ انہوں نے دینی و عصری تعلیم کے سنگم سے ایک ایسا تعلیمی انقلاب برپا کیا، جو آج لاکھوں طلبہ کی زندگی میں اجالا بن کر چھایا ہوا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیمی سفر
مولانا وستانویؒ کا جنم یکم جون 1950ء کو ریاست گجرات کے ضلع سورت کے گاؤں وستان میں ہوا۔ قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد انہوں نے مدرسہ شمس العلوم بڑودہ اور دارالعلوم فلاح دارین، ترکیسر میں تعلیم حاصل کی، اور پھر دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور سے علوم دینیہ کی تکمیل کی۔
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم: ایک خواب جو حقیقت بن گیا
1979 میں، مولانا وستانویؒ نے مہاراشٹر کے پسماندہ علاقے اکل کوا میں صرف چھ طلبہ اور ایک استاد کے ساتھ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی بنیاد رکھی۔ آج یہ ادارہ:
- 79 دینی مدارس برائے لڑکے
- 37 دینی مدارس برائے لڑکیاں
- 2,221 مکاتب (جن میں 1,42,000 سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں)
عصری تعلیم میں انقلاب
مولانا وستانویؒ نے سمجھا کہ صرف دینی تعلیم کافی نہیں، بلکہ مسلم نوجوانوں کو جدید علوم میں بھی مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ اسی وژن کو حقیقت بنانے کے لیے انہوں نے:
- 44 پرائمری اسکول
- 34 ہائی اسکول
- 16 جونیئر کالج
- انجینئرنگ، فارمیسی، آئی ٹی آئی اور پولی ٹیکنک کالجز
- بی ایڈ اور ڈی ایڈ کالجز
میڈیکل تعلیم کا سنگ میل
2013 میں انہوں نے Indian Institute of Medical Science and Research (IIMSR)، جلنا کے نام سے مہاراشٹر کا پہلا اقلیتی میڈیکل کالج قائم کیا، جو نیشنل میڈیکل کمیشن سے تسلیم شدہ ہے۔
مزید ادارے:
- 700 بستروں پر مشتمل نور اسپتال
- 37 مختلف طبی مراکز
- 870 بستروں والا ایک ملٹی اسپیشلٹی اسپتال
دارالعلوم دیوبند کی قیادت
2011 میں انہیں دارالعلوم دیوبند کا مہتمم مقرر کیا گیا، لیکن کچھ داخلی اختلافات اور میڈیا تنازعات کی بنا پر انہیں اسی سال عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ تاہم ان کی انتظامی صلاحیتوں کو ہر مکتبہ فکر نے سراہا۔
وفات اور وراثت
مولانا وستانویؒ کا انتقال 4 مئی 2025 کو ہوا۔ ان کی وفات سے دینی و تعلیمی دنیا میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔ لیکن ان کا چھوڑا ہوا تعلیمی سرمایہ، ان کی مستقل فکر، اور ان کے ادارے، آج بھی ان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
نتیجہ
مولانا غلام محمد وستانویؒ ایک ایسے مجاہد علم تھے جنہوں نے صرف باتیں نہیں کیں بلکہ کام کر کے دکھایا۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو، وژن وسیع ہو اور ہمت مضبوط ہو تو کوئی خواب ناممکن نہیں ہوتا۔